*مسجد اقصى*
رافضی مصادر ومراجع کی روشنی میں
مسجد اقصى ہمارا قبلہ اول ہے۔ (لا تُشَدُّ الرحالُ إلا إلى ثلاثۃ مساجد) کہہ کر جن تین مساجد کی طرف قصدا سفر کرنے کی اجازت دی گئی ہے ان میں ایک یہی مسجد اقصى ہے جو فلسطین کی مبارک سرزمین بیت المقدس میں ہے۔ اس مسجد میں ایک نماز پڑھنے کا ثواب 500 نمازوں کے برابر ہے۔ یہ مسجد تمام مسلمانوں کے یہاں مسجد حرام اور مسجد نبوی کے بعد سب سے بڑا مقام ومرتبہ رکھتی ہے۔
سب سے پہلے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اسے 16 ہجری میں آزاد کرایا تھا۔ پھر سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ نے اسے 583ھ میں صلیبیوں کی 88 سالہ قبضہ سے آزاد کرایا۔ تب سے یہ مسلمانوں کی ماتحتی میں تھا۔ یہاں تک کہ 1948ءمیں برطانیہ کی مدد سے اسرائیل وجود میں آیا اور فلسطین کی مبارک سرزمین کے ساتھ ساتھ مسجد اقصى بھی دھیرے دھیرے یہودیوں اور صیہونیوں کے کنٹرول میں چلا گیا۔ اس وقت در حقیقت اس پر انھی کا قبضہ ہے۔
عرب 1948ء سے ہی اس کی آزادی کے لیے کوشاں ہیں۔ اس راہ میں انھوں نے بڑی جانی ومالی قربانیاں دی ہیں اور آج تک دے رہے ہیں۔ تاہم اس مبارک سرزمین کی آزادی کی راہ میں ایک بھاری پتھر نفاق کا وہ جال ہے جو اس کے گرد بن دیا گیا ہے۔ اس نفاق کی قیادت ایران کی مجوسی حکومت کر رہی ہے۔ جبکہ اخوانیوں اور تحریکیوں کی پوری لابی اس کا سپورٹ کر رہی ہے۔ اس طرح یہ مبارک سرزمین یہودیوں، صلیبیوں، رافضیوں اور اخوانیوں کے چنگل میں پھنس کر رہ گئی ہے۔
اس نفاق کی کاشت کے لیے جہاں رافضی مجوسیوں نے فیلق القدس اور حماس کی مدد کا ناٹک رچا وہیں اخوانیوں اور تحریکیوں نے اس نفاق کا ہر طرح سے پروپیگنڈہ کیا اور اسے کیش کرانے کی بھر پور کوشش کی۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ رافضیوں کے یہاں مسجد اقصى کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔ نہ توان کے عقیدہ میں اس کی کوئی حیثیت ہے، نہ ہی عملاً وہ اس کی بازیابی کے لیے کوشاں ہیں۔ بلکہ الٹا وہ ابتدا سے ہر وہ کام کرتے آئے ہیں جس سے فلسطین برباد ہو اور اس کی مبارک سرزمین پر یہودیوں کا مکمل کنٹرول رہے۔ رافضیوں کی پوری تاریخ بھی اسی کا تقاضا کرتى ہے کہ وہ اسلام اورمسلمانوں کی دشمنی میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔
تاکہ ہم ان رافضیوں کے نفاق سے دھوکہ نہ کھائیں اور مسجد اقصى نیز فلسطین کے تعلق سے ان کی خبثیانہ پالیسی ہمیں کسی فتنہ میں نہ ڈال دے ضروری ہے کہ ہم اس مبارک سرزمین اور اس عظیم مسجد کے تئیں ان کا حقیقی موقف بلکہ ان کا عقیدہ اور ان کے علماء کا حقیقی نظریہ جان لیں:
1. مشہور رافضی مفسر عیاشى (ت: 320ھ) نے اپنی تفسیر میں ایک روایت ذکر کی ہے جس کا مفاد یہ ہے کہ معروف فضیلت والی مسجدیں صرف مسجد حرام اور مسجد نبوی ہیں۔ مسجد اقصى تو آسمان میں ہے۔ بیت المقدس میں موجود مسجد سے تو کوفہ کی مسجد افضل ہے۔ (تفسیر العیاشی 2/279)۔
2. مشہور رافضی مفسر ملا محسن کاشانی (ت: 1090ھ) اللہ تعالى کے فرمان: ((سُبْحَانَ ٱلَّذِى أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ ٱلْمَسْجِدِ ٱلْحَرَامِ إِلَىٰ ٱلْمَسْجِدِ ٱلأَقْصَا ٱلَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَآ إِنَّهُ هُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلبَصِير (( [الاسراء:1] کی تفسیر میں کہتا ہے: مسجد اقصى سے مراد ملکوتِ مسجد اقصى ہے جو آسمان میں ہے۔ (تفسیر الصافی3/75)۔
3. مشہور رافضی عالم محمد باقر مجلسی (ت: 1699ء) اپنے مشہور کتاب بحار الأنوار میں جو درحقیقت بحار الظلمات ہے ایک روایت ذکر کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ مسجد اقصى آسمان میں ہے اور بیت المقدس میں واقع جس مسجد کو لوگ مسجد اقصى کہتے ہیں اس سے افضل کوفہ کی مسجد ہے۔ (بحار الأنوار 97/405)۔
مسجد اقصى کے بارے میں اس طرح کی روایتیں متعدد رافضی تفاسیر اور دیگر شیعی کتابوں میں بکثرت ملتی ہیں۔ درحقیقت مساجد ثلاثہ کے بارے میں یہ رافضی اعتقاد کا بنیادی حصہ ہے کہ مسجد اقصى زمین پر موجود وہ مسجد نہیں ہے جسے مسلمان قبلہ اول سمجھتے ہیں۔ بلکہ اس کا زمین پر کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ جو مسجد بیت المقدس میں مسجد اقصى کے نام سے مشہور ہے اس سے افضل تو کوفہ کی مسجد ہے۔
ایسی صورت میں کسی رافضی کو بھلا مسجد اقصى کی کیا فکر ہوگی جبکہ وہ اس کے وجود ہی سے انکاری ہے۔ بنا بریں اس مبارک سرزمین فلسطین سے اس کا کیا قلبی تعلق ہوگا۔
مسجد اقصى کے بارے میں رافضیوں کے یہاں یہ عقیدہ اس قدر منتشر ہے کہ جہاں بھی مساجد مفضلہ کا ذکر آئے گا یہ چیز کسی نہ کسی صورت میں مل جائے گی۔ خصوصا معتمد رافضی تفاسیر میں تو یہ چیز بھری پڑى ہے۔ متقدمین سے لے کر متاخرین تک سب اس پر گویا اجماع کربیٹھے ہیں اور تسلسل کے ساتھ یہی بات دوہراتے چلے آرہے ہیں۔
4. سیستانی نے تو اعتکاف کے شرائط ذکر کرتے وقت جن چار مساجد میں اعتکاف کا ذکر کیا ہے وہ بالترتیب مسجد حرام ، مسجد نبوی، مسجد کوفہ اورمسجد بصرہ ہیں۔ مسجد اقصى کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ (منہاج الصالحین 1/320)۔
5. خمینی نے بھی یہی کام کیا ہے ۔ چنانچہ اعتکاف کے شرائط میں یہ صراحت کی ہے کہ ان چار مساجد کے علاوہ میں اعتکاف محل اشکال ہے۔ وہ چار مساجد مسجد حرام، مسجد نبوی، مسجد کوفہ اور مسجد بصرہ ہیں۔ مسجد اقصى کا اس ضمن میں کہیں کوئی ذکر نہیں ہے۔ (تحریر الوسیلۃ 1/273)۔
متقدمین ومتاخرین شیعہ کے یہاں اس طرح کے کثرت نقولات اور فرضی روایات نے رافضیوں کے دل ودماغ میں یہ چیز بیٹھا دی ہے کہ بیت المقدس میں موجود مسجد نہ تو مسجد اقصى ہے، نہ ہی سورہ اسراء میں موجود مسجد اقصى سے مراد یہ موجودہ مسجد ہے۔ مسجد اقصى کا وجود کسی بھی شکل میں آسمان میں ہے اور بیت المقدس میں موجود مسجد جو مسجد اقصى کے نام سے مشہور ہے یہ کوئی اور مسجد ہے جس کی حقیقت یہ ہے کہ کوفہ کی مسجد اس سے کہیں افضل ہے۔
یہ جان کر آپ دنگ رہ جائیں گے کہ مسجد اقصى کے بارے میں یہ عقیدہ کہ وہ آسمان میں ہے اور زمین پر موجود نہیں ہے؛ بعض یہودیوں اور باطنی فرقوں کا عقیدہ ہے۔ ان رافضیوں کی یہودیوں سے مشابہت کا یہ ایک مزید پہلو ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آپ ان کے علماء کی کتابیں پڑھیں، مسجد اقصى کے بارے میں ان کے خطابات سنیں تو یہ بات بالکل واضح ہو جائے گی کہ ان کے یہاں سرزمین فلسطین میں واقع بیت المقدس میں موجود حقیقی مسجد اقصى کی حقیقت کوڑے کے ایک ڈھیر سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔ ان کی گفتگو اور اسلوب سےمسجد اقصى کے تئیں ان کی نفرت اور ناگواری چھلکتی ہے۔ حتى کہ ان کے بعض علماء تو اسے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی بنائی ہوئی مسجد قرار دیتے ہیں۔ شاید اس عظیم اور مقدس مسجد سے ان رافضیوں کے نفرت کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہو کہ اسے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے آزاد کرایا تھا۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ان کی نفرت تو جگ ظاہر ہے۔ ایسے میں بھلا ان کا کوئی کارنامہ انھیں کیسے بھا سکتا ہے؟
آپ غور کریں !کسی قوم کا اگر مسجد اقصى کے تئیں یہ عقیدہ ہو۔ اس کے تئیں اس کا یہ نظریہ ہو، تو بھلا وہ اس کی بازیابی کے لیے کیسے کوشش کر سکتی ہے؟
سو ٹکے کا سوال یہ ہے کہ جب رافضیوں کے یہاں مسجد اقصی کا زمین پر وجود ہی نہیں ہے، تو ایران کی مجوسی حکومت فلسطین میں کون سا جنگ کر اور کروا رہی ہے؟ یا کس چیز کی آزادی کے لیے نیم رافضی اخوانی حماس کی مدد کر رہی ہے؟
حقیقت یہی ہے کہ اس وقت مسجد اقصى ایرانی مجوسیوں، رافضی اسلام دشمنوں اور نیم رافضی اخوانیوں کے نفاق کا ایسا کھیل بنا ہوا ہے جس کا میدان کذب وخداع سے لبالب بھرے عقیدہ تقیہ اور ہر مکرو فریب کو جائز قرار دینے والے خبیث قاعدہ "الغایۃُ تُبَرِّرُ الوَسِیلَۃَ" سے سجایا گیا ہے
ریحان