سوال
ایک بہن کا سوال ہے کہ اگر گھر کے اندر چوری کی بجلی کو استعمال کریں اور اس بجلی سے وضو کرے اور پھر اسے وضو سے نماز ادا کرے تو وہ کیا نماز ہوتی ہے اور اس وضو سے جتنی بھی نمازیں ادا کی ہوگی کیا ان سب نمازوں کو دوبارہ پڑھنا ضروری ہے
جواب
اسلامی فقہ کے مطابق، چوری کی بجلی کا استعمال شرعاً ناجائز اور حرام ہے، کیونکہ یہ دوسروں کے حقوق پر دست درازی اور امانت میں خیانت کے مترادف ہے۔ تاہم، اگر کوئی شخص لاعلمی یا مجبوری میں چوری کی بجلی سے حاصل شدہ پانی سے وضو کرے اور اس وضو سے نماز ادا کرے، تو اس کی نماز درست ہے، لیکن چوری کا گناہ اپنی جگہ باقی رہے گا۔
*وضاحت:*
1. *چوری کی بجلی کا استعمال:*
چوری کی بجلی استعمال کرنا شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔ یہ عمل نہ صرف قانونی جرم ہے بلکہ شرعی لحاظ سے بھی گناہ کبیرہ ہے۔ چاہے یہ بجلی کسی سرکاری ادارے کی ہو یا نجی کمپنی کی، اس کا غیر قانونی استعمال ممنوع ہے۔
2. *چوری کی بجلی سے حاصل شدہ پانی سے وضو:*
اگر چوری کی بجلی سے پانی حاصل کیا جائے اور اس سے وضو کیا جائے، تو وضو شرعی طور پر درست ہے، بشرطیکہ پانی پاک ہو۔ فقہاء کے مطابق، جب تک وضو کے لیے استعمال ہونے والا پانی پاک اور مطہر ہو، وضو صحیح ہوتا ہے، چاہے وہ پانی کسی ناجائز ذریعے سے حاصل کیا گیا ہو۔
3. *نماز کی صحت:*
ایسے وضو سے ادا کی گئی نماز بھی شرعی طور پر درست ہے۔ نماز کی صحت کا دارومدار وضو کی صحت پر ہے، اور جب وضو صحیح ہے تو نماز بھی صحیح ہے۔ البتہ، چوری کی بجلی کا استعمال ایک الگ گناہ ہے جس کا حساب اللہ تعالیٰ کے ہاں ہوگا۔
4. *ماضی کی نمازوں کا اعادہ:*
اگر کسی نے لاعلمی میں چوری کی بجلی سے حاصل شدہ پانی سے وضو کرکے نمازیں ادا کی ہیں، تو ان نمازوں کا اعادہ ضروری نہیں ہے، کیونکہ وہ شرعی طور پر صحیح ہیں۔ تاہم، اگر کسی نے جان بوجھ کر چوری کی بجلی استعمال کی ہے، تو اسے توبہ کرنی چاہیے اور آئندہ اس عمل سے باز رہنا چاہیے۔
5. *توبہ اور اصلاح:*
چوری کی بجلی استعمال کرنے والے کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے سچے دل سے توبہ کرے